جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔۔۔؟؟

اگر محمد بن قاسمؔ نے سندھ اور پھر ہند پر حملہ نہ کیا ہوتا تو برصغیر میں اسلام کو راہ نہ ملتی،محمد بن قاسم کو واپس بلا کر پابند سلاسل نہ کر دیا ہوتا تو اسلام برصغیر کا سب سے بڑا مذہب بن سامنے آتا۔ اگر محمود غزنوی مسلسل حملوں کے بعد سومنات کے بت پاش پاش نہ کر دیتا تو اسلام اور مسلمان ڈیورنڈ لائن کے اس طرف ہی بس اور جی رہے ہوتے اور اس طرف وہی بت اور بت پرستی ہوتی مگر قدرت کچھ اور ہی چاہتی تھی ، قدرت اپنے ارتقائی مراحل کو کبھی ٹکنے نہیں دیتی۔یہ ازل سے ہیں اور ابد تک جاری رہیں گے۔اگر محمود غزنوی گجرات سے ہی واپس نہ لوٹتا تو پھر بھی اسلام ایک بڑا مذہب بن سکتا تھا۔ مگر افسوس صد افسوس ! ایسا نہ ہو سکا۔ قرون وسطی کے مسلمان اقتدار اور پھر آپسی جنگوں کی وجہ سے الجھے رہے اور ہندوستان رفتہ رفتہ مرکز سے دور ہوتا گیا ، ہندوستان ایک الگ ملک بن گیا ۔ مغلوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور پھر ہوس ملک گیری ان کو کشمیر تک کھینچ لائی ۔ گرچہ مغلوں نے کشمیر پر کئی حملے کیے مگر ناکامی ہوئی اور آخر کر کشمیری حکمران یوسف شاہ چک کو گرفتار کر کے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور ایسا ’’اندرونی دوستوں‘‘ کی کمال خدمت گزاری اور محبت سے پیش آیا ۔ اور پھر یہ رسم الفت یوں نبھائی کہ اگلے تین سو سال تک کوئی بھی خطہ مقدس کی طرف ایک قدم بڑھاتا تو یہ دس قدم بڑھا کر خوش آمدید کہتے رہے۔ (یقیناًیہ دور کمال کی مہمان نوازی کا عظیم دور رہا ہو گا تب ہی ہر خداوند ستم اس دھرتی کا رخ کرتا اور مشق ستم کرتا رہتا تھا۔)افغانوں کے آخری دو ر میں پنجاب میں رنجیت سنگھ اپنا علم لے کر جموں پر حملہ آور ہوا اور جموں کے راجہ کو ہرا کر جموں کو پنجاب میں شامل کر لیاْ ۔ یہ وہ دور تھا جب انگریزی یا ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پر اپنے قدم مظبوط کر چکی تھی اور طوائف الملوکی کے باعث مغل شہنشاہیت دم توڑ رہی تھی اور آہستہ آہستہ منہدم ہو رہی تھی ، مرہٹے اور پھر دیگر نسلوں کے لوگ سر اٹھا رہے تھے مرہٹوں کی قمر گر چہ احمد شاہ ابدالی نے توڑ دی مگر مغلوں کے پاس اب اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ پارہ پارہ ہوتی سلطنت کو دوبارہ سے بحال کر سکیں۔ پنجاب میں سکھوں کے حکومت تھی اور رنجیت سنگھ مہاراجہ یا حکمران تھا۔ اس نے کشمیر پر بھی قبضہ کر لیا اور افغانیوں کو بھگا دیا۔ ہم گلاب سنگھ کی زندگی کی داستان رقم کرنا نہیں چاہتے مگر جیسے حالات تھے ان حالات میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کے اس تاجدار کی سیاسی ، سماجی ، عسکری اور ذاتی زندگی پر نظر ڈالی جائے کیونکہ شخصیت پسندی اور شخصیت سے نفرت ہمارے معاشرے کا لازمی جزوبن چکے ہیں اور ایسا مذہب ، تقافت، لسان،قوم اور ملک کو بنیاد بنا کر کیا جاتا ہے کیوں نہ انسان کی صلاحیتوں کی تعریف رنگ ، نسل و مذہب سے بالاتر ہو کر کی جائے۔ گلاب سنگھ 1792 کو جموں مین پیدا ہوئے اس کے والد مہارجہ جموں کے قرابت دار تھے ۔ گلاب سنگھ نے ابتدئی تعلیم و تربیت اپنے دادا سے حاصل کی جس میں اس نے گھڑ سواری اور جنگی فنون سکھائے۔ جب رنجیت سنگھ نے جموں پر حملہ کیا تو گلاب سنگھ جس کی عمر اس وقت سولہ سال تھی نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑی مگر ناکام رہا اور جموں پر رنجیت سنگھ نے قبضہ کر لیا ۔ اگلے ہی سال گلاب سنگھ کابل پہنچا اور بادشاہ کی فوج میں شامل ہو گیا اور اس کی مدد طلب کی مگر جب انہوں نے دریائے سندھ سے آگے بڑھنے سے منع کر دیا تو وہ واپس آ گیا اور رنجیت سنگھ کے دربار سے منسلک ہو گیا۔ رنجیت سنگھ کے دربار سے منسلک ہونے کے بعد گلاب سنگھ پر قسمت اور محنت کی دیوی مہربان ہو گئی اور وہ ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا۔ جموں کا راجہ مرنے کے بعد گلاب سنگھ جموں کا راجہ بن گیا ۔ 1837 میں جب مسلمان قبائل نے کشمیر اور ہزارہ میں بغاوت کی تو گلاب سنگھ نے ان کی سرکوبی کی ۔ جیسا کہ اس دور کی جنگوں میں ہوتا تھا بالکل ویسا ہی اس جنگ کے اختتام پر بھی گلاب سنگھ نے قبائل کے ساتھ کیا جنہوں نے بغاوت کی تھی۔
انگریزوں نے عملا برصغیر پر قبضہ کر لیا تھا، اور برصغیر کے اکثر علاقوں کے ان کی بالواسطہ حکومت تھی ۔ انہوں نے پنجاب حکومت کے ساتھ ایک محائدہ کر رکھا تھا جس کی رو سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے ۔ مگر سکھوں نے جب ان کو چھیڑا تو واضح رہے کہ اس وقت تک رنجیت سنگھ مر چکا تھا اور پنجاب کی سکھ حکومت بھی اندرونی طور پر انتشار کا شکار تھی۔ انگریزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پنجابیوں کو راس نہ آئی اور انگریزوں سے شکست کھائی ۔ شکست کے بعد گلاب سنگھ نے انگریزوں اور سکھوں کے درمیان جنگ بندی کروائی اور طے پایا کہ تاوان جنگ کے طور پر ڈیڑھ کروڑسکہ رائج الوقت سکھ سرکار کو ادا کرنا تھا جو کہ خزانے میں موجود نہ تھا ۔ گلاب سنگھ چالاک اور ہوشیار تھا اس نے 75لاکھ نانک شاہی انگریز سرکار کو تاوان جنگ کے طور پر ادا کر دیے کیونکہ سکھوں میں اس کی سکت نہ تھی اور کشمیر اور ہزارہ کے علاقے پر حق حکمرانی تسلیم کروایا گورنر کشمیر نے گلاب سنگھ سے لڑائی کی تو انگریزوں کی مدد سے اس نے کشمیر پر قبضہ کر لیا تاریخ کا یہ اہم ترین دن 16مارچ ہی تھا جب جموں کشمیر کو تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منفرد اور یکجا شناخت ملی ۔ کشمیر جو ماضی میں کبھی بہت وسیع رہا تھا اور اس ریاست کا سکہ سندھ و ہند پر چلتا تھا کو ایک نئی شناخت ملی ۔یہاں تاریخ کا طالب علم اس مسئلے میں الجھا ہوا نظر آتا ہے کہ آیا گلاب سنگھ نے ریاست پر قبضہ کیا؟؟ گلاب سنگھ نے ریاست کو خریدا؟ یا انگریزوں نے اسے فروخت کیا؟؟ اور یہ سارے سوالات ایک مخصوص ذہن یعنی مسلمان ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں جو کہ اس کے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اگر گلاب سنگھ نے تاوان جنگ یا قیمت انگریزوں کو ادا نہ کی ہوتی تو کیا اس وقت کشمیر کا نام دیگر ہندوستانی ریاستوں کی طرح دنیا کے نقشے سے مٹ نہ گیا ہوتا؟ گلاب سنگھ اور اس کے جانشینوں کا ظلم و ستم یا انصاف کی کہانی ایک الگ موضوع ہے مگر تاریخ کے طالب علم کو اس حقیقت سے منحرف نہیں ہونا چاہیے کہ یہ ریاست جموں کشمیر جو اس وقت عالم انساں کے ذہنوں پر منعکس ہے دراصل گلاب سنگھ ہی کی دین ہے، اور معائدہ امرتسر ہی اس کی بنیاد ہے۔ ہاں اگر گلاب سنگھ کا نام ’’گلاب خان‘‘ ہوتا، رنبیر سنگھ کا نام ’’راشد حسین ’’ اور ہری سنگھ کا نام ’’حارث علی ‘‘ ہوتا تو اہل کشمیر و پاکستان کے لیے زیادہ قابل قبول ہوتا ، عین ممکن تھا جموں یا کشمیر میں گلاب خان کا ایک مزار بھی ہوتا جہاں راز و نیاز کی باتیں اور منتیں ہوتی اور اس دن کو زور و شور سے منایا جاتا اور عین ممکن تھا پاکستان بننے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی بلکہ ہمالہ سے کراچی تک ایک ہی وطن یعنی ’’جموں کشمیر ‘‘ہوتا۔ مگر غالب کی طرح ہماری بھی ہر حسرت ناتمام رہی کہ ’’یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟‘‘
جواداحمدپارسؔ

Author: News Editor

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.