’’انقلاب‘‘

’’انقلاب‘‘

آنکھ کھلی تو زندگی کو سانحات کی زد میں پایا۔ا نسان کو انسان کا دشمن دیکھا ، محبت کی کہانی میں عداوت کا پہلو نمایاں نظر آتا رہا۔ رسموں کے آگے اپنوں کو قربان ہوتے پایا ، ذات پات نے اپنی حثیت کو خوب اجاگر کیا۔ قاتل خود ہی منصفی کی کرسی پر بر اجمان نظر آیا۔ اٹوٹ بندھنوں کو سرحدوں کے ہاتھوں ٹوٹتے دیکھا ، ظلم کو عام اور انصاف کو چھپتا دیکھا۔ کبھی ناانصافی کے ہاتھوں انصاف نے بے بس ہو کر کنارہ کشی کر لی تو کبھی ناانصافی کو غیر مرئی دیکھا گیا۔ تہذیب و تمدن کی اس جنگ کو وقت کے شاعروں فلسفیوں اور ادیبوں ، دانشوروں نے قوموں کے عروج وزوال کا نام دیا۔
بچپن کی دہلیز پار کی تو سامنے لڑکپن کی چوکھٹ تھی۔ دل نے چاہا کہ اس کو چھوڑ کر جوانی دیوانی کو گلے لگایا جائے۔ لیکن دستور قدرت کے ہاتھو اس وقت بے بسی قابل دید تھی مجبور ہو کر ہتھیار ڈالے اور لڑکپن کا دروازہ کھٹکھٹایاوہ تو جیسے میری آمد کا منتظر تھا دروازہ بغیر کسی جستجو کے کھل گیا ۔ مجھے آغوش میں لے کر لڑکپن پھولے نہیں سما رہا تھا ۔ اور میری اڑان بھی اس وقت ستاروں سے آگے تھی۔ دفعتاََ سامنے دیکھا تو لڑکپن کو بچپن سے وسیع پایا اور میں اپنی اس ترقی پر پھولے نہیں سما رہا تھا۔ نئے چہرے، نئے نام، نئے رشتے اور نئے لوگوں سے شناسائی ہونے لگی۔ نئے الفاظ ، نئی تہذیب، نئے انداز میرے دماغ کے خلیوں میں جگہ پانے کیلئے بے قرار تھے زندگی خوشی خوشی کٹ رہی تھی اجالا خوشیوں کی سوغات لاتا۔ اندھیرا نئی صبع کی نوید سناتا۔کٹ رہی تھی بھلی اپنی کہ روز کی شاموں کی طرح ایک حسین شام میں روز ہی کی طرح کرسی پر برجمان میز پر حال اور ماضی کی کتابیں سجائے اور ایک کتاب دست میں اٹھائے بیٹھا تھا۔ پڑہنا تو محال تھا ۔ مصروفیت صرف کتاب کے ورق الٹنے پلٹنے تک محدود تھی ۔ جستجو صرف الفاظ کے تلاش کی تھی ۔ کہ اچانک میری نظر صفحے کی ساتویں لائن کے تیسرے حرف پر ٹک گئی۔ اس لفظ کی خاص وجہ اسے کوماز کے اندر لکھا گیا تھا۔ حالات عام کی طرح میں نے اگلے صفحے کی طرف بڑہنے لگا۔لیکن میری آنکھیں چندھیا گئیں ، میری زبان کنگ ہو گئی، میری گویائی سلب ہو نے لگی، دھڑکن دل بھی تیز تر ہو گئی۔ علامات دورہ دل صاف ظاہر ہو گئیں اور میں نے لپک کر پھر وہی صفحہ الٹایا۔آنکھوں کی بینائی واپس آنے لگی، کانوں میں ہوا کا شور آہستہ آہستہ اترنے لگا۔ لب ہلے، زبا ن تالو سے لگی ، گلے سے گول آواز ابھری پھر زبان تالو سے لگی پھر لب جڑے اور کتاب پر لکھا لفظ ہوا کے سہارے سفر کرتا کانوں کے پر دوں سے ٹکرایا۔یا اللہ! جسم میں سرد سی ایک لہر دوڑ گئی۔ ماتھا پسینے سے شرابور ہو گیا۔ پھر لب ہلے اور وہی لفظ’’انقلاب‘‘سماعتوں کی نظر ہونے لگا۔ ’’انقلاب‘‘ ’’انقلاب‘‘ ’’انقلاب‘‘ ’’انقلاب‘‘ ’’انقلاب‘‘ایک ہی لفظ ہزاروں کی تعداد میں میری سماعتوں سے ٹکرانے لگا۔ جیسے ایک ہی مائیک کے ساتھ بہت سارے سپیکر جوڑ دیے گئے ہوں اور ہر ایک اپنی اپنی آواز دے رہا ہو۔ جیسے سنسان اور خاموش پہاڑوں کو کسی نے اپنی گونج سے چھیڑ دیا ہو اور اب پہاڑ اس کا جواب انہی الفاظ میں دے رہے ہوں میرے دماغ میں جھماکے سے ہونے لگے اور پلک چھپکنے میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہواجیسے کسی نے مجھے بجلی کا کرنٹ لگا دیا ہومیرے ہاتھ سے کتاب چھوٹ کر فرش پر گر گئی۔ تھوڑی دیر بعد طبیعت سنبھلنے لگی اور میرے ہوش وہواس قابو میں آنے لگے ۔ جھک کر کتاب کو اٹھا کر میز پر رکھا اور دل کی بے قراری کو ختم کرنے کیلئے کھلی فضا میں آ گیا ۔ہوا تازہ تھی اور خوری میں بھی مزا آ رہا تھا ۔ شام کے سائے ہمیشہ کی طرح فضاؤں کو اپنی آغوش میں لے رہے تھے۔ وقت بدلتے وقت نہیں لگتا لیکن میرے لئے وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔ بے قراری و بے چینی تھی کی پلٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ہزاروں لفظ پڑہے مگر اس لفظ’’انقلاب‘‘ میں جانے ایسی کیا بات تھی جو مجھے اتنا بے قرار کر رہی تھی شاید یہ دوسرے الفاظ سے قدرے مختلف تھا۔تازہ ہوا خوری سے تھوڑی طبیعت سنبھل گئی واپس آیا تو پھر وہی روگ وہی بے قراری۔ گھنٹوں کتاب کا ایک ہی صفحہ کھولے رہتا ایک ہی لفظ میں منہمک رہتا۔ اسی پر نظر ٹکی رہتی۔ حالت دیوانگی تک جا پہنچی زندگی بتدریج کم ہو رہی تھی صحت روز بروز بگڑ رہی تھی۔ سکول ہو کہ گھر ایک ہی صفحہ ایک ہی لفظ نظروں کے سامنے رکھنے کو دل کرتا تھا دنیا کی نظر سے اپنی یہ حالت کب تک چھپاتا آخر ایک نہ ایک دن بات سامنے آنی ہی تھی سو آ بھی گئی۔گھر والوں اور دوستوں کو میری صحت کی تشویش ہونے لگی کہاں وہ فولاد سا بدن اور کہاں کمزور ہو کر کانٹا بن گیا تھا۔ لفظ ’’انقلاب‘‘ ہر وقت میں اپنے پاس ہی رکھتا تھا۔ گھر والوں نے غور کیا کہ میں پڑھتے وقت کچھ کھو سا جاتا ہوں اور ہر وقت ایک ہی صفحہ میری آنکھوں کے سامنے کھلا رہتا ہے۔ دوستوں کو بھی اس بات کا پتہ چل گیا چونکہ اس بات کو ماننے کو کوئی تیار نہ ہوتا سو میں نے بتایا بھی نہ کہ کیا وجہ ہے۔یار دوست تنگ کرنے لگے کہ بیٹا تجھے عشق ہو گیا ہے لیکن کسی کو پتانہ تھا کہ کس سے جس کا اس دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں ہے بس ایک لفظ سے، گھر والے پریشان تھے کہ آخر کیا روگ لگ گیا ہے۔ رشتہ داروں میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ کسی جن پری کا سایہ ہو گاکوئی بتا رہا تھا کہ کسی نے جادو کر دیا ہے۔ کسی بابے کو دکھایا جائے گھر والے مرتے کیانہ کرتے ہر ایک کو دکھایا مشہور سے مشہور ماہر نفسیات سے چیک کروایا لیکن نتیجہ ندارد۔ تنگ آ کر اس روگ کی دوا تلاش کرنے عاملوں کے پاس گئے لیکن وہ بھی کچھ نہ کر سکے اور جواب دے دیا آ خر تھک ہار کر گھر بیٹھ گئے انہی دنوں ایک اور واقعہ پیش آیا پتہ ہی نہیں چلا کہ میں بچپن کی سرحدیں پھلانگ کر جوانی کی حدود میں داخل ہو چکا تھا اور جوانی تو ویسے بھی دیوانی ہوتی ہے خون نے تھوڑی گرماہٹ دی مگر بے کار۔جب جسم میں توانائی نہ ہو تو خون کی گرمی بھی بے کار ہوتی ہے لفظ ’’انقلاب ‘‘ میرے دماغ میں رچ بس گیا تھا۔ خود کو تو کو ئی ہوش نہ تھا مگر دوسروں کا سکون بھی برباد کر دیا تھا۔ سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک پہنچنے میں جو وقت لگا۔ اس کا کوئی پتا نہیں کیسے گزرا۔ ایک دن یونیورسٹی میں ایک تقریری مقابلہ تھا جس کا عنوان تھا’’انقلاب‘‘ جب مجھے پتہ چلا کہ اس موضوع پر بحث ہو رہی ہے تو میں بھلا کسی سے کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔ابتدائی ٹیسٹ کے بعد ہی مجھے مقابلے کیلئے چن لیا گیا میں نے اپنی حالت کبھی نہیں سنواری لیکن اس روز میں خوب بن ٹھن کر یونیورسٹی گیا ۔ یار دوست دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ عجیب سی خوشی تھی لیکن کسے پتہ تھا کہ یہ جو چہرے پہ بکھری بکھری مسکراہٹ ہے یہ خوشی جلد ہی مانند پڑنے والی ہے۔ مقابلہ شروع ہوا ایک سے بڑھ کر ایک مقرر ، میری باری آخرآئی اور مجھے سٹیج پر بولنے کیلئے بلایا گیا ۔ کچھ دیر میں اپنے دماغ میں گزشتہ کے واقعات دہراتا رہااور ایک سرد آہ بھر کر’’ انقلاب ‘ ‘ ’’ انقلاب ‘‘کئی مرتبہ دھرایا۔پھر مجھے کچھ یاد نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا میں نے تقریر کی یا نہیں کی ۔ ہوش آیا تو داہنی طرف ایک ڈاکٹر اور بائیں طرف ایک نرس کھڑی تھے۔ ڈاکٹر نے مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر پوچھا۔ ’’نوجوان اب کیسا محسوس کر رہے ہو ‘‘ میں اسے کیا جواب دیتا خود حیران تھا کہ میں حال سے یہاں کیسے پہنچا۔گزشتہ واقعات کو اپنے ذہن میں دہرانے لگا ۔ تو مجھے یاد آنے لگا کہ دوران تقریر میں چکرا کر گر گیا تھا پھر کچھ سائے میری طرف لپکے تھے اور پھر کچھ یاد نہ تھا۔ میرے لئے یہ سمجھنا بالکل بھی مشکل نہ تھا کہ میں اس وقت ہسپتال میں تھا ۔’’نوجوان تمہیں پورے بیالیس گھنٹوں بعد ہوش آیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر مجھے بتاتے ہوئے بولا شاید وہ بھانپ گیا تھا کہ میں پریشان ہوں کہ میں کہاں ہوں دروازہ کھلا تو گھر والے اندر داخل ہوئے مجھے ہوش میں دیکھ کر انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا ۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا’’ویسے تو انہیں کوئی خاص بیماری نظر نہیں آتی سوائے جسمانی کمزوری کے ، تقریباََ تمام رپورٹس آ چکی ہیں کوئی خاص پریشانی کی بات نہیں ہے۔ بس یہ دماغ پر زیادہ زور نہ ڈالیں اس بار تو یہ بچ گئے ۔اگلی بار ایسا ہو ا تو کوما کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ فی الحال آپ انہیں گھر لے کر جا سکتے ہیں لیکن خیال رہے ہفتے میں ایک آ دھ مرتبہ ضرور ڈاکٹر کو دکھا لینا‘‘ میرے دوست باہر انتظار کر رہے تھے میں اپنے قدموں پر چلنے کے قابل تھا اس لئے میں خود ہی اٹھ کر باہر آ گیا ۔ گھر والے اب میرا پہلے سے دوگناہ خیال رکھنے لگے تھے لیکن نتیجہ وہی ۔ ایک دن میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں کسی کی تلاش میں ہوں در بدر بھٹک رہا ہوں سفید داڑھی والے ایک باریش بزرگ سے میر ی ملاقات ہوتی ہے۔ میں راستے کے متعلق سوال کرتا ہوں وہ مجھے راستہ بیتا دیتے ہیں میں ان کا شکریہ ادا کر کے آ گے نکل جاتا ہوں ۔ جاگا تو پسینے سے شرابوار تھا میں نے سوچا شاید بابا کا بتایا ہوا راستہ ہی میرے روگ کی دوا ہو میں نے ان کے بتائے ہوئے راستے پر رخت سفر باندھنے کا ارادہ کر لیا۔ رات کے پچھلے پہر میں گھر والوں سے چھپ کر گھر سے نکل گیا ۔ نا معلوم منزل ، سنسان راستے اور تنہا راہی ۔ لگا دربدر کی خاک چھاننے ،شہر ہو کہ جنگل ، دشت ہو کہ دریا ، میدان ہو کہ پہاڑ غرض کوئی جگہ خاک چھاننے کے بغیر نہ چھوڑی ۔دربدر بھٹکا کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ناز و نعم سے پلنے والا یہ بدن یوں دربدر کی خاک چھانے گا دن راستوں میں کٹتے راتیں جنگلوں اور بیا بانوں میں گزرتیں ۔ آ خر ایک دن پھر خواب میں انہی بابا کی زیارت ہوئی بولے’’ بیٹا ہمت کر تیری منزل قریب ہے ابھی مشکلیں ختم ہونے والی ہیں ابھی امتحان اپنے آخری مراحل میں ہے تو ہمت نہ ہارنا سرخرور ہو گا‘‘ آنکھ کھلی دیکھا تو ایک ویرانے میں تھا ۔ یا خدا یہ کیا ماجرا ہے ؟ میں کہاں ہوں؟ دھیرے دھیرے سب یاد آنے لگا۔ماں ، باپ، بہن ، بھائی ، دوست یار سارے تاد آنے لگے ۔ یاد آیا کہ ہاں میں نے انہیں بتایا بھی نہیں کہ میں کہاں جا رہا ہوں جانے کتنے ہی مہینے یوں ہی کٹ گئے ہیں وہ تو بہت زیادہ پریشان ہوں گے۔آخر یہ’’ انقلاب ‘‘ہے کون ؟ جس نے مجھے کسی کا بھی نہیں چھوڑا آخر یہ مجھے کیوں رسوا کر رہا ہے۔ بابا کی خواب میں بتائی بات یاد آ گئی ۔ دل نے کہا کہ اب منز ل قریب ہے مت لوٹ منزل کو پالے ۔ رخت سفر اٹھا یا اور چل دے بیابان آئے اور ختم ہوتے گئے پہاڑ آئے اور ختم ہو گئے اسی طرح کئی مہینے گزر گئے۔ ایک بے آب وگیارہ سحرا میں آ گیا کئی دن اور را تیں چلتا رہا۔ صحرا ختم ہوا تو سامنے ایک جنگل تھا جس سے پانی کا ایک نالہ گزر رہا تھا۔ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی ۔نہ انسان تھا اور نہ کوئی چرند پرند ۔ نالے سے صاف پانی پیا تو اور خدا کا شکر ادا کر کے ساتھ ہی ایستادہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں ۔ جانے کب سو گیا آنکھ کھلی تو دن ڈھلنے کے قریب تھا۔اچانک ہی سامنے بنے مٹی کے ایک جھونپڑے پر نگاہ پڑی ۔ اللہ کا شکر ادا کیاکہ چلو ایک عرصے کے بعد کسی انسان پر نگاہ تو پڑے گی۔صحن میں ٹوٹی ہوئی ایک چارپائی پر ایک دراز قد بزرگ لیٹے ہوئے تھے قریب پہنچ کر دیکھا تو وہی باریش بزرگ تھے جو مجھے خواب میں دکھائی دیے تھے۔چہرے کی جھریوں سے طویل العمری نمایاں تھی سر اور داڑھی کے بال دودھ کی طرح سفید تھے کمزور اتنے کہ جسم کی ہڈیوں کے جوڑ تک نظر آ تے تھے۔ نہایت مفلس ، نہایت مفلس اور معصوم میں انہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ ان کے لب ہلے اور آ واز آئی’’اے نادان انساں ، ناطق حیواں، کیوں چھان رہا ہے خاک بیاباں ، لوٹ جا کہ ابھی تو ہے جواں، کیوں بن بیٹھا ہے دشمن جاں ۔ جا میں تیرے کسی کام نہیں آ سکتا ۔ میں نے عرصہ ہوا تیرا دیس چھوڑا ، تیرا وطن چھوڑا ، تیر ا گھر چھوڑا ، تیرا ضمیر چھوڑا ، تجھے چھوڑا جا تو اپنے حال میں خوش رہ میں اپنے حال میں خوش ہوں مجھے کیوں تنگ کر رہا ہے کیوں مجبور کر رہا ہے جا لوٹ جا ، تیرے اپنے تیرے منتظر ہیں ، جا تیرے وطن کے بچے بچے کی زبان پر ’’ انقلاب ‘‘ زندہ باد کے نعرے ہیں۔جا تو بھی ان کے ساتھ نعرے لگا ۔ جس خاک پرجس در پر کسی بے گناہ کر تنگ کیا جاتا ہے تڑپایا و ترسایا جاتا ہے ، مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے وہ وہاں لوٹ کر نہیں جاتا مجھے بھی کب سے تیرے دیس سے نکالا جا چکا ہے ۔ تو لوٹ جا‘‘ ۔ انکی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے میں ان کے قدموں میں گرگیا گڑگڑانے لگا بھیک مانگنے لگا کہ مجھے ’’انقلاب‘‘ سے ملا دیں ۔ آ خر وہ بولے ’’میں ہی انقلاب ہوں،جسے تیری دنیا میں پوجا تو جاتا ہے لیکن صرف اپنے فائدے کیلئے‘‘مجھے جو شک گزرا تھا وہ ٹھیک تھا وہ کہہ رہے تھے’’میرا ہی نام انقلاب تھا، غریبوں کا مسیحا تھا، سسکتی و تڑپتی انسانیت کا مسیحا ، مظلوم بے کس و مجبور کا مسیحا ، غلاموں اور بے زبانوں کا مسیحا، مگرمدت ہوئی میں نے یہ سب چھوڑ دیا ہے۔ شاید رب کی بنائی اس کائنات پر میرا کام تمام ہوا ۔ میں اپنے دکھ درد لے کر تیری دنیا کے ظالم انسانوں سے الگ ہو گیا۔کیونکہ جب مظلوم خود ظالم کا ساتھ دے تو میں وہاں کیا کر سکتا ہوں ، انسان خود کو تہذیب یافتہ قرار دے رہا ہے اور اپنے سے پہلے لوگوں کو جاہل سمجھنے لگا ہے میں تو فتح مکہ کے بعد گوشہ تنہائی اختیار کر چکا تھا کیونکہ رسول خداﷺ نے جو قانون انسانوں کو بنا کر دیے اس میں اونچ نیچ اور ذات پات کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تخلیق کائنات سے لے کر اس دن تک میں اسی قانون کو بندگان خدا میں پھیلانے کی کوشش کرتا تھا اور اسی کا مجھے حکم ہوا تھا میں ایک قوم سے دوسری قوم ایک قبیلے سے دوسرے قبیلے تک جاتا لیکن وہ چند دن بعد ہی مجھے بھول جاتے میں خوش تھا کہ ابھی تاقیامت آرام کروں گا لیکن آرام میری قسمت میں کہاں تھا شہادت عثمانؓ کے بعد وہی خون کا بازار گرم ہو گیا انسانیت پھر سے تڑپنے لگی حضرت علیؓ بھی پوری جدوجہد کر رہے تھے لیکن ظالموں نے انہیں بھی قتل کر دیا میں نے اپنی آنکھوں سے جگر گوشہ رسول ﷺ کو صحرا کربلا میں کٹتے دیکھا میں پھر انسانیت کی خدمت کیلئے آیا لیکن وہی دشمنی وہی قتل غارت وہی اونچ نیچ وہی ذات پات وہی آقا و غلام وہی بڑا اور چھوٹا میں ہر زمانے میں کسی نہ کسی انسان کے روپ میں آتا گیا لیکن اب انسا ن کا مزاج بدل چکا ہے پہلے دشمن بھی صداقت پرست ہوتے تھے مگر اب انسانیت کے علمبردار خود انسانیت کا گلا گھونٹنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ آج انسانیت کو میری بہت ضرورت ہے اس کیلئے مجھے ایک انسانی بدن ہی کی ضرورت ہے جو سچائی کا دامن نہ چھوڑتا ہو ۔ تیری دنیا میں ہر شہر ، ہر چوراہے ، ہر ایک موڑ پر مجھے بدنام کیا جا رہا ہے میں کس کا انتخاب کروں کہ قاتل بھی انقلابی ہے ،چور بھی انقلابی ہے، زانی بھی انقلابی ہے ، سود خور بھی انقلابی ہے، جھوٹا بھی انقلابی ہے ، مولوی بھی انقلابی ہے ، پنڈت بھی انقلابی ہے، راہب بھی انقلابی ہے، عالم بھی انقلابی ہے ، جاہل بھی انقلابی ہے، سیاستدان بھی انقلابی ہے،تاجر بھی انقلابی ہے ۔ لوگوں نے قومیں پوجنا شروع کر دیں قبیلے پوجنا شروع کر دیے۔ اپنے آباء پر فخر کرنے لگے اور خود ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئے ۔ ہر کوئی اپنی بات کر رہا ہے کسی کو انسانیت کی کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔ اجتماعیت کھو چکے ہیں اور انفرادی ذہنیت نے ان کے گھر ڈیرہ جما لیا ہے ۔ عرصہ ہوا انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے ۔ لوگ انقلاب کا نعرہ لگا کر اپنے اپنے فائدے کیلئے برسر پیکار ہیں ۔ ہر شخص خود کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے ۔ صادق کر پاگل اور جھوٹے کو صادق سمجھنے لگے ہیں ۔ سب ہی انقلاب کی بات کرتے ہیں لیکن انقلاب کیا ہے کسی کو نہیں پتہ۔
اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گئے میں پاس ہی سر جھکائے بیٹھا تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے میں نے ان کا دامن پھر پکڑ لیا ’’میری قوم کئی دھائیوں سے سسک اور تڑپ رہی ہے اس کو آپ کی ضرورت ہے میں جانتا ہوں سب نادان ہیں مگر پھر بھی انسان ہیں آپ میرے ساتھ چلیں میں اپنے خون کے آخری قطرے تک آپ کے ہر حکم کو مانوں گا‘‘۔وہ مجھے جھٹک کر بولے اے بندہ ناچیز تو اپنے آپ کر کیا سمجھتا ہے۔ کیوں اپنی چہتی جوانی کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے میں نے تیرے جیسے کروڑوں دیکھے ہیں تیری دنیا میں انسان کی کوئی قیمت نہیں ۔ کس پل کس لمحے کون کس کا دشمن بن بیٹھے پتہ نہیں۔ انسانوں کی حرکتیں حیوانوں سے بھی بدتر ہیں ۔ شاید تو اپنے وعدے کا پکا ہو میں نے تیری جستجو اور تیری تلاش کو دیکھ کر تجھے شرف ملا قات دیا ہوا کے جھونکے مجھے تیرے بارے میں آکر بتاتے کہ تو دربدر بھٹک رہا ہے ۔ تو میری دل پسیج گیا ورنہ مجھ تک پہنچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں میں انسانوں کو پرکھ کر خود ان کے پاس جاتا ہوں‘‘
’’ہاں مجھے اندازہ ہے کہ نہ ہی میں آپ کے قابل ہوں اور میری راہ میں اتنی مشکلات حائل ہیں کہ آپ میرا ساتھ نہیں دے سکتے ۔ میرے وطن کے حکمران بے ضمیر ہیں ،میری قوم بک چکی ہے اور جو بچتے ہیں وہ غلام بن کر لٹ رہے ہیں مگر پھر بھی ظلم کی اس رات میں حق کا نعرہ لگانے والے اور نوید صبح ہوا کہ موجود ہیں جو اپنی جان قوم کی اجتماعی بے حسی پر قربان کرتے آئے ہیں اور موجود بھی ہیں ۔ کیونکہ ہم نہیں ہونگے تو کوئی ہم سا ہو گا ۔ والا ایک پرانہ مقولہ ہے ۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کچھ لوگ اقتدار کی جستجو کیلئے آپ کے نام لے رہے ہیں حالانکہ وہ خود بھی ظالم ہیں لیکن آپ چند لوگوں کو دیکھ کر پوری قوم کو نہیں چھوڑ سکتے میری قوم آپ کی کی دھائیوں سے اور سسکتی اور تڑپتی انسانیت کئی صدیوں سے آپکی منتظر ہے۔‘‘میں بھی رو پڑا۔
’’تم کیا سمجھتے ہو کہ میں یہ درد محسوس نہیں کرتا۔قوموں کی مکمل آزادی اور انسانوں کی مکمل راہنمائی ہی میرا کھانا پینا اور اوڑھنا بچھونا ہے،اس کے بغیر میں بھی نا مکمل ہوں۔تم یہ جو میرے بدن پر جھریاں ، میرے بدن کو لاغر و کمزور دیکھ رہے ہو۔یہ دراصل اسی غذا کی کمی ہے جو انانیت کی حقیقی آزادی سے مجھے حاصل ہوتی ہے۔میں بھی کب یہ چاہتا ہوں کہ میں بوڑھا اور لاغر رہوں میں بھی تو جوان ہونا چاہتا ہوں، میں بھی تو اچھا کھانا کھانا چاہتا ہوں۔مگر رب کی بنائی اس کائنات پر شاید اب یہ ممکن نہ ہو سکے۔میں سب سہہ سکتا ہوں مگر قوموں کی بے حسی، بے غیرتی اور ابن الوقتی مجھے ان سے دور رہنے پر مجبور کرتی ہے۔کیونکہ یہ سہنا میرے بس میں نہیں‘‘۔
میں نے ہر طریقہ اپنایا مگر وہ نہ مانے ۔ میں ان کے پاؤ ں پڑ گیا گڑگڑانے لگا ان کی منت کرنے لگا مگر وہ نہ مانے جب سب طریقے رائیگاں گئے تو میں نے انہیں رب کعبہ کا واسطہ دیا تو وہ بولے’’تم نے مجھے مشکل میں ڈال دیا ‘‘ میں خوش ہو گیا کہ اب حضرت انقلاب میں ے ساتھ جائیں گے اور انسانیت کی فتح کے دن قریب ہیں میرے چہرے پر خوشی دیکھ کر وہ بولے’’اے نادان! اتنابھی خوش نہ ہو کیونکہ تیری زندگی انتہائی مختصر ہے شاید تیری زندگی میں دوبارہ ہماری ملاقات نہ ہو سکے۔مجھے تم نے مجبور تو کر دیا ہے مگر اس میں زمانے بھی لگ سکتے ہیں انقلاب کے حصول کیلئے قوموں کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن حقیقی اور اجتماعی قربانیاں ۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ تیری قوم کو ایک بار ضرور آزماؤں گا لیکن اس کیلئے سارا کام تم ہی کو کرنا پڑے گامیرا کردار انتہائی کم ہے ۔ سب سے پہلے تم ان کی اجتماعی بے حسی کو توڑ کر ایک قوم بناؤاس کیلئے لاکھوں لوگ کام آ سکتے ہیں اور لاکھوں کا خون قوم کی اجتماعی نیند کیلئے کام آ سکتا ہے۔جس دن تمہاری قوم مکمل تور پر آگاہ ہو جائے گی۔ جس دن سب میں حق پر ڈٹنے اور کٹنے کی طاقت آ جائے گی اس دن تمہیں مجھے بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی میں بن بلائے ہی تمہاری قوم کے پاس آ جاؤں گا اب تم جاؤ کیوں کہ تمہارے پاس وقت کی قلت ہے ایک بات یاد رکھنا کسی موڑ پر سچائی کا دامن نہ چھوڑنا فتح تمہاری ہو گی ورنہ ذلیل و خوار رہو گے‘‘۔میں ان سے آنے کا وعدہ لے کر ہمیشہ کیلئے لوٹ آیا کہ اپنی قوم کو جگانے میں اپنا کردار ادا کروں اب میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ کسی دن میری قوم حق و باطل سے آشنا ہو گی اور انفرادی سوچ و نظریے کو توڑ کر اجتماعی سوچ و نظریہ اپنا لے گی۔ منافقت و خود پسندی کو چھوڑ دے گی اورراہ ہدایت پر منزل کی طرف قدم رنجہ فرمائے گی اس دن خود بخود انقلاب آ جائے گا لیکن اس کیلئے حق پرستوں کو شاید زمانے بھی لگ جائیں شاید ان کی کئی نسلیں اس میں کام آئیں ۔ حضرت انقلاب نے مجھے جو نصیحت کی وہی حقیقت میں انسانیت کی عظمت کی جانب جانے کا راستہ ہے جس دن میری قوم یہ راہ اپنا لے گی غلامی کے منحوس سائے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس دن چھٹ جائیں گے۔
جواد احمد پارسؔ
18-12-2012

Author: News Editor

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.