جس دور میں جینا مشکل ہے. اس دور میں جینا لازم ہے. ثمینہ راجہ جموں و کشمیر

پاکستانی مقبوضہ جموں و کشمیر (جسے شاعرانہ اصطلاح میں “آزادکشمیر” کہا جاتا ہے) میں آج کل نام نہاد اسمبلی کے انتخابات کا رولا ہے ۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس خِطے کو آزاد کشمیر کہنا لفظ آزادی کے مفاہیم و معانی کا ستیاناس ہے اور یہاں کی قانون ساز اسمبلی اپنے طور پر کوئی قانون بنانے کے قابل نہیں ہے ۔ اس اسمبلی کے لیئے انتخابات میں حصہ لینے کی خاطر شرط کے طور پر پہلے تحریری طور پر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والا فرد پاکستان کا وفادار رہے گا اور ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا پابند رہے گا ۔ اسی شرط کی وجہ سے قوم پرست اور ریاست جموں و کشمیر کی آزادی و خودمختاری کے داعی سیاسی کارکنان انتخابات میں حصہ نہیں لیتے رہے ہیں ۔ ان قوم پرستوں کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ کسی ایسی شرط کو تسلیم نہیں کرتے اس لیئے اس شرط کی موجودگی میں انتخابات کے لیئے قوم پرست یا تو اپنے کاغذاتِ نامزدگی ہی داخل نہیں کرواتے رہے ہیں یا پھر کاغذاتِ نامزدگی داخل کراتے وقت الحاق کی اس شِق کو کاٹ دیتے رہے ہیں اور اُن کے اس عمل کی وجہ سے اُن کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دئیے جاتے رہے ہیں ۔ یوں قوم پرست آزادکشمیر کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی سے کٹ جاتے رہے ہیں ۔

مگر ایسے میں ایک دلچسپ اور نہایت مضحکہ خیز صورتحال یہ سامنے آتی رہی ہے کہ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے اکثر کارکنان (محاذ رائے شماری تو پارٹی کی حیثئیت میں باضابطہ طور پر انتخابات میں ایک الحاق نواز پارٹی کی بھرپور انتخابی مہم چلاتی رہی ہے) اپنے آپ کو انتخابی عمل سے الگ کرنے میں ناکام رہتے رہے ہیں اور اپنی سیاسی پارٹی کی انتخابات میں عدم موجودگی کا بہانہ بنا کر انتخابات میں اپنی برادری، قبیلے یا دیگر سماجی قرابت داریوں کی بنیاد پر
الحاق نواز اور پاکستانی سیاسی جماعتوں کے امیدواران کی نہ صرف یہ کہ بھرپور حمایت کرتے رہے ہیں بلکہ اپنی پسند کے ایسے امیدواران کی انتخابی مُہم بھی چلاتے رہے ہیں ۔

قوم پرست سیاسی کارکنان کا یہ عمل انہیں عوام کے سامنے قول و فعل میں واضع تضاد کے باعث غیر محسوس انداز میں ناقابلِ بھروسہ اور ناقابلِ اعتماد بناتا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ قوم پرستوں کی عوامی پزیرائی میں کمی واقع ہوتی رہی ہے ۔ عوام بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کرتے رہے ہیں کہ قوم پرست سیاسی کارکنان دوغلے پن اور دو عملی کا شکار ہیں اور ظاہر ہے ایسے کردار کے حامل سیاسی کارکنوں پر عوام کبھی اعتماد نہیں کرتی ۔

اس صورتحال کا اِدراک ایک سیاسی پارٹی کی حیثئیت میں سب سے پہلے جموں کشمیر نیپ نے کیا (اگر چہ ماضی میں کچھ قوم پرست سیاسی کارکنان انفرادی طور پر انتخابات میں حصہ لیتے رہے مگر کسی قوم پرست سیاسی جماعت نے باضابطہ طور پر انتخابی عمل میں شرکت کا فیصلہ نہ کیا) اور گزشتہ ایک دو انتخابات سے اپنی انتخابات سے علیحدگی کی پالیسی پر نظرثانی کی اور انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا اعلان کیا ۔    جموں کشمیر  نیپ  کا یہ فیصلہ انتہائی دور رس نتائج کا حامل ہے اور وقت ثابت کرے گا کہ نیپ  کا یہ فیصلہ درست سمت میں انتہائی دانشمندانہ فیصلہ ہے ۔

مگر المیہ یہ ہے کہ اکثر قوم پرستوں کو الحاق کی شِق کا بہانہ ملا ہوا ہے ۔

قوم پرستوں کو سمجھنا ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو عوام اور عوامی مسائل سے کاٹ کر کبھی بھی عوام کی حمایت اور تعاون حاصل نہیں کر سکتے ۔ اگر عوام کو اپنے ساتھ کھڑا کرنا ہے تو ضروری ہے کہ عوام کی روزمرّہ کی زندگیوں کے مصائب، مسائل اور مشکلات  کو اپنی سیاسی جدوجہد کا محور اور مدعا بنایا جائے ۔ ایک یہی طریقہ ہے جو قوم پرستوں اور عوام کے درمیان حائل موجودہ خلیج کی وسعت کو کم کر سکتا ہے ۔ جب تک قوم پرست عوام کے ساتھ جُڑ کر  اپنی جدوجہد کو ازسرِنو تشکیل نہیں دیتے ان کی سیاسی سرگرمیاں بار آور ثابت نہیں ہو سکتیں ۔
جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کا بھرپور طریقے سے انتخابی عمل میں شرکت کا فیصلہ انتہائی مستحسن عمل ہے، اس فیصلے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور اسی لیئے میرے نزدیک یہ فیصلہ دیگر تمام قوم پرست سیاسی جماعتوں کے لیئے قابلِ تقلید  عمل ہے ۔

جیت ہار کوئی معانی نہیں رکھتی، سنجیدگی کے ساتھ عوام کے پاس جانا اور عوام کے ساتھ جُڑ کر رہنا اہم ہے ۔

قوم پرستوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرنی ہو گی ۔ قوم پرستوں کو یہ نقطہ بھی سمجھنا چاہیئے کہ اُن کی اپنے خِطے کے سب سے اہم انتخابات کے عمل سے علیحدگی اور سیاسی زندگی میں اُن سے عملاً کٹے ہوئے اور بہتر سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کے کشمیر کی آزادی کے نعرے مارنے کی موجودہ پالیسی قابض ممالک کی ایجینسئیوں کے منصوبے کو تقویت دینے کے مترادف ہے ۔

قوم پرستوں کو اس تلخ حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا ۔ عوام کے ساتھ جُڑے بغیر عوام کو ساتھ چلانا ممکن نہیں ہوتا اور جس تحریک کے ساتھ عوام نہیں ہوتے وہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوتی ۔

چنانچہ میں تجویز کرتی ہوں کہ تمام قوم پرست سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو عوامی تنہا پسندی کے موجودہ تباہ کُن اور مُہلک عمل سے باہر نکالیں اور انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کریں ۔ قوم پرستوں کو اپنے اپنے حلقوں میں نسبتی برتری کے اعتبار سے دوسری قوم پرست سیاسی جماعتوں کے ساتھ بامقصد اور سنجیدہ انتخابی اتحاد قائم کرنا ہو گا ۔ یہ عمل جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو ایک دوسرے کے قریب لائے گا وہیں عوام کو بھی قوم پرستوں کی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ جوڑنے کا مؤجب بنے گا اور انتخابات کے زینے پر قدم رکھے بغیر یہ ممکن نہیں ہو گا ۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ۔

image

Author: News Editor

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.