دنیا کی سب سے مشہور ترین شخصیت . تحریر: عابی مکھنوی

ایک عجیب بات بتا رہا ہوں ۔ میں نے کبھی خواہش نہیں کی کہ کبھی نعت کہوں ۔ فن میں نا پختگی اپنی جگہ زیادہ خوف فکر کی معذوری کا ہے ۔ اعمال کا بہت بڑا چور ہوں اور جو بھی حج عمرے کے لیے جاتا ہے بس ایک دعا کا کہتا ہوں کہ میرا نام لے کر میری ہدایت کی دعا کرنا !! ہاں ایک اعتراف ہے کہ میں نے عالم بشریت میں اپنے ماں باپ بیوی بچوں دوست احباب میں سے کبھی کسی کو معمول سے زیادہ نہیں سوچا !! لیکن میرا رب گواہ ہے کہ شاید ہی کوئی لمحہ نبی کریم ﷺ کے عہد طفولیت ، لڑکپن ، جوانی اور پھر نبوی دور کی زندگی سے متعلق سوچ سے آزاد گزرا ہو ۔ اور عجیب ترین بات کہ میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی پہلو ثابت ہو جائے کہ میں اُن کے لائے دین پر اُنگلی اُٹھاتا دائرے سے باہر چلا جاؤں ۔ زندگی میں چونکہ ہر گروہ کے ساتھ اُٹھک بیٹھک رہی ۔ کیا مؤمنین اور کیا ملحدین !! لہذا دماغ کا ایک گوشہ شکوک پالتا گیا !! جہاں جہاں کسی نے شک کا بیج بویا وہاں وہاں یقین کا ایک تناور درخت کھڑا ہوتا چلا گیا !!
مزید تفصیل پھر کبھی !! تو نعت کہنے سے ہمیشہ کتراتا ہوں ۔ بے ادبی کا خوف دامن گیر رہتا ہے ۔ وہ نعت کا محتاج کیسے ہو سکتا ہے جس کا ذکر رب نے بلند کر دیا ہو !!
لگے ہاتھوں ایک تازہ مثال سُن لیں ۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ حال ہی میں مجھے ایک بڑی تقریب میں شرکت کا موقع مِلا !! یہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمینٹ کے ذیلی اداروں کے زیر اہتمام تقریب تھی ۔ مقام تھا شیریٹن ہوٹل تاریخ شاید 14 نومبر تھی۔
سامعین و حاضرین میں اکثریت جدید تعیلم یافتہ طبقے کی تھی ۔ امریکی سفارتخانے سے اعلٰی امریکی سفارتی عہدیدار موقع پر موجود تھے ۔ تقریب میں شامل بچوں کے لیے ایک مختصر کوئز پروگرام بھی تھا ۔ تقریب کی تمام کاروائی انگریزی زبان میں تھی ۔
میزبان کا بچوں سے پہلا سوال تھا “” دُنیا بھر میں مقبول ترین نام کیا ہے “” میزبان کے پہلو میں ہی ایک بچہ کھڑا ہوا ۔ شدتِ جذبات سے کانپتی آواز سے اُس نے مائیک میں ” محمد ﷺ ” کہا اور پُورا ہال تالیوں سے گُونج اُٹھا !!
میرے دماغ میں آیت گونجنے لگی “” ورفعنا لک ذکرک “”
قصہ مختصر اللہ نے میرے نبی کریم ﷺ کو تعریف سے غنی کر دیا ۔ اگر کسی کو یہ توفیق ملتی ہے تو یہ اُس کی خوش بختی ہے خوش نصیبی ہے کہ ذریعہ بنا اللہ کے وعدے کی تکمیل کا !!
تو مُجھ پر جب بھی کُچھ اس سلسلے میں وارد ہوا اُس میں میری کبھی کوئی کوشش نہیں رہی ۔ شاید دو دن قبل کی بات ہے ۔ آفس سے واپسی کے بعد معمول کے مطابق آرام کی طلب بھی نہ تھی ۔ اُوٹ پٹانگ کاموں میں لگ گیا ۔ گیارہ بجے شب سونے کی کوشش کرنے لگا تو نیند فرار ۔ موبائل سے کھیلنا شروع کیا تو دِل بیزار ۔ اچانک دھیان ذاتِ اقدس ﷺ کی طرف چلا گیا اور پھر کچھ بے ربط سطریں سکرین پر پھیلتی چلی گئیں ۔ آنکھیں بوجھل ہونے لگیں تو جو لکھا تھا کاپی کر کے دوسری آئی ڈی پر اِن باکس کر دیا !! صبح دیکھا تو وہ ایک نعتیہ نظم تھی

Author: News Editor

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.