ہمارے آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ نبی ہی نہ تھے بلکہ خاتم الانبیاء تھے صدر سردار مسعود خان

مظفرآباد ( ایس ایم خالد بیگ سے)صدر آزاد جموں و کشمیر سردار محمد مسعود خان نے کہا ہے کہ سرکار عالم حضرت محمدﷺ کی سیرت طیبہ سیاست و حکومت ، سماجی و معاشرتی معاملات ، انسانی تعلیمات و اصلاحات ، بین الاقوامی روابطہ غرض یہ کہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے ۔صدر آزاد کشمیر نے ان خیالات کا اظہار آج آڈیٹوریم میڈیکل کالج مظفرآباد میں محکمہ مذہبی امور و اوقاف کی جانب سے منعقدہ قومی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے یہ امر باعث سعادت ہے کہ یہ محفل اس ہستی کے نام سے سجی ہے ۔ جو باعث تخلیق کون و مکان اور وجہ وجود کائنات ہے ۔ عالم رنگ بو کی ساری رعنائیاں اور توانائیاں حضرت محمدﷺ؍ کے دم و قدم سے ہیں ۔ آپ کی ذات گرامی نسخہ کونین کا دیباچہ ہے اور آپ کی پاکیزہ تعلیمات بزم کونین کا منشور اور دستور ہے ۔ انبیاء کرام کی مقدس جماعت میں اللہ رب العزت نے حضرت محمدﷺ کی ذات گرامی کو آ خری ، آفاقی اور ہمہ گیر رسالت عطا فرمائی ہے ۔ نبوت و رسالت ایک عظیم عطیہ الہیٰ ہے ۔ جب یہ عطیہ اللہ رب العزت اپنے کسی بندے کو بخشتا ہے تو وہ سب کچھ بخش دیتا ہے جو اس دنیا میں بخشا جا سکتا ہے ۔صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ ہمارے آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ نبی ہی نہ تھے بلکہ خاتم الانبیاء تھے ۔ صرف رسول ہی نہ تھے بلکہ سید الرسل تھے ۔ صر ف اہل عرب کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔ اور آپﷺ کی تعلیمات و ہدایات کسی خاص مدت تک کے لیے نہیں بلکہ تا حیات آنے والی ساری نسلوں کے لیے ہیں۔ آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ضامن ہے ۔سردار مسعود خان نے کہا کہ میں اس بات پر کامل ایمان رکھتا ہوں کہ اگر رہبر انسانیت حضرت محمدﷺ کی مقدس تعلیمات پر آج بھی صدق دل سے عمل کیا جائے تو نہ صرف اُمت مسلمہ کے لیے دنیا و آخرت کی راہیں کھل جائیں گی بلکہ پوری دنیا میں امن و سکون اور سلامتی کا دور دورہ ہو جائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مسلمان سماجی، سیاسی ، تعلیمی اور مذہبی لحاظ سے پستی اور انحطاط کا شکار ہیں۔ پوری اُمت مسلمہ ثقافتی ، اقتصادی ، فوجی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں پسماندگی کا نمونہ بنی ہوئی ہے ۔ غیروں کی نظر میں ہم مسلمان بنیادنی انسانی حقوق کے تصور کے منکر قرار پائے ہیں۔ عدم برداشت ، ہٹ دھرمی ، فرقہ پرستی ، عسکریت پسندی ، تشدد پسندی ، دین و مذہب کے نا م پر قتل و غارت گری غرضیکہ ہر قسم کی منفی اور انسانیت کے خلاف تخریبی سر گرمیوں کا رشتہ بین الاقوامی طور پر مسلمانوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے ۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ غیروں کی ہمارے بارے میں یہ رائے بحیثیت مجموعی قطعاً غلط ہے ۔ اور ان کا یہ تحریر مکمل طور پر حقائق کے برعکس ہے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں اُمت مسلمہ کی اس طرح کی تصویر کشی مخصوص غیر مسلم حلقوں کی مسلمہ دشمنی کا شاخسانہ ہے ۔ تا ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اُمت مسلمہ کی اس پستی اور گراوٹ میں ہم مسلمانوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آج اُمت مسلمہ کو جن بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ اور ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں مسلسل نا کامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ان کی اصل اور حقیقی وجہ یہ ہے کہ ہمارے رہبر اعظم حضرت محمدﷺ کی جامعیت ، کاملیت ، عالمگیریت اور فطرت انسانی سے مطابقت پر مبنی تعلیمات سے رو گردانی ہے ۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل دنیا کی حالت دگر گوں تھی ہر طرف بد امنی اور فتنہ و فساد کا دور دورہ تھا ۔ خاص طور پر سر زمین عرب قتال و جدال کی آماہ گاہ بنی ہوئی تھی ۔ قبائل کے درمیان ہر وقت جنگ برپا رہتی تھی ۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار گویا اس معاشرے کا معمول بن چکا تھا ۔ بلکہ وہ اس پر فخر کرتے تھے ان حالات اور ایسے ماحول میں حضور اکرم ﷺ مبعوث ہوئے ۔ آپؑ کی تعلیمات کی بدولت عرب معاشرہ بالکل بدل گیا ۔ دشمنیاں ختم ، اخوت و بھائی چارہ کی فضا عام ہو گئی ۔ حریف اور برسر پیکار انسانی طبقات آپس میں شیر و شکر ہو گئے ۔ رنجشیں ختم ہو گئیں ۔ ایسی اسلامی برادری قائم ہو گئی کہ دنیا نے اس مختصر عرصہ میں ایک شاندار اسلامی ریاست ایک پر امن معاشرہ اور بے مثال تہذیب کا نظارا کیا ۔ معاشی اعتبار سے تقسیم و گردش دولت کا مثالی نظام قائم کیا گیا ۔ جس سے ارتکاز دولت کے امکانات ختم ہو گئے ۔ تمام معاشرے کے مختلف اکائیوں اور اداروں کی شکل میں منظم کیا گیا ۔ افراد خاندان سے لے کر حاکم اور ریاست تک سب کے حقوق و فرائض کا نظام وضع کیا گیا ، تعلیم و خواندگی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کئے گئے ۔ اقتصادی ، سماجی اور سیاسی اصول و قوانین نافذ کئے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے عوامی مشاورت اور رعایا کی شرکت اقتدار کا اعلی جمہوری نظام نافظ کیا گیا ۔عوام کو بنیادی انسانی حقوق عطا کئے گئے ۔ انہیں جان و مال اور عزت و آبروں کے تحفظ کی قانونی و ریاستی ضمانت میہا کی گئی ۔ آزادی رائے اور اختلاف رائے کی اجازت دی گئی ۔ غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق تسلیم کر کے انہیں تحفظ فراہم کیا گیا۔ سول قوانین ، عائلی و ازدواجی قوانین، فوجداری قوانین ، مالیاتی قوانین و ضابطہ جانی قوانین ،تجاری و اقتصادی قوانین ، فوجی و دفاعی قوانین ، جنگ و امن کے قوانین ، بین الاقوامی قوانین حتی کہ عام شہری کے نجی و انفرادی حقوق و فرائج سے لے کر اقوام عالم کے معاملات تک قونون سازی ہوئی اخلاقی و روحانی تعلیم و تربیت کے لئے صفہ کو پہلی درسگاہ اور روحانی خانقاہ کے طور پر تیار کیا گیا ۔ عبادات کے نظام کو منظم کرنے کے لیے مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کیلئے ایک نیا چیلنج ہے۔ کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے۔ ہمیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کیلئے متحد ہونا ہو گا۔ بیت المقدس ہمارا قبلہ اول ہے۔ ہم بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔ صدر سردار مسعود خان نے آخر میں محکمہ مذہبی امور و اقاف آزاد جموں و کشمیر کو کامیاب قومی سیرت کانفرنس کے انعقاد پر انہیں مبارکباد پیش کی اور یہ توقع ظاہر کی کہ محکمہ مذہبی امور و اوقاف آزاد جموں و کشمیرو بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کو قائم رکھنے کے لیے اپنی قابل تحسین کاوشوں کے ساتھ ساتھ حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کے ہر پہلو کو اُجاگر کرنے کے لیے مستقبل میں بھی اسی طرح کی کانفرنسز کا انعقاد عمل میں لاتا رہے گا ۔ انہوں نے مہمان مقرر پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ بیگ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حاضری کو قبول فرمائے اور اسے ہمارے لیے توشہ آخرت بنائے ۔ کانفرنس سے سیکرٹری اوقاف ومذہبی امور نذیر الحسین گیلانی، پروفیسر ڈاکٹر ظفراللہ بیگ،مولانا عبید اللہ فاروقی ،مولانا روحیل عباسی،مولانا سید فرید عباس اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.