حق بات پہ کٹتی ہے تو کٹ جائے زبان میری

خبریں آ رہی ہیں کہ یاسر خواجہ کے قتل کے حوالہ سے سیاسی جغہ دار سر جوڑ کے بیٹھ گئے ہیں کہ معاملہ کو انڈر ٹیبل ڈیل کر کے گول مول کر دیا جائے۔ ہم لوگ جو سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پہ مسئلہ کو اٹھارہے ہیں ہم پہ الزام لگ رہا ہے کہ اسے سیاسی رنگ دیا جارہا ہے۔ جبکہ میں اور میرے ساتھ جتنے احباب انفرادی یا اجتماعی کوشش کر رہے ہیں، سب کا اولین مقصد انسانیت کو درندوں سے بچانا ہے۔ ان لوگوں نے اس سے پہلے جو ہالن میں دو قتل ، بالکل اسی انداز میں کئے تھے اس کے آخری ملزم کو بھی سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے پہ رہائی کے فوری بعد یہ قتل کیا۔
ان لوگوں کو یہ پتہ لگ چکا تھا کہ ہم کس قانونی سقم کافائدہ اٹھا کے درندگی کے سفر کو مسلسل جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے فورایہ قدم بھی اٹھا لیا کیوں کہ وہ انسانی خون پینے کے عادی ہو چکے تھے۔ اور یہ خون آشام بھیڑئیے اب رکنے والے نہیں تاوقتیکہ ان کو نشانِ عبرت نہ بنا دیا جائے۔ اور ایسی مثال قائم کی جائے کہ ایسا سوچنے والے کی بھی روح کانپے۔
سیاست اس پہ وہ لوگ کر رہے ہیں جو اس کو انڈر ٹیبل حل کرنا چاہتے ہیں، ان کا تعلق کسی خاندان سے ہو، ان کو ہم ہر صورت بے نقاب کریں گے۔ یہ معاملہ اب کسی ایک فرد ، گھر یا خاندان کا نہیں رہا ہوا، یہ معاملہ بالخصوص حویلی اور بالعموم ساری انسانیت کا ہے۔ اس پہ جو بھی ڈیل کرنے کی کوشش کرے گا یا اس کا حصہ بنتا نظرآئے گا اس کی کہانیاں انشاءاللہ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پہ ہم لے کے جائیں گے۔
ایک غیرت و انسانیت سے عاری جاہل نے یہ تک کہہ دیا کہ صاحب مرنے والا مر گیا، موت آئی تھی، اللہ کو منظور ہی ایسے تھا۔ اس کو اچھالو نہیں۔ اور وہ کہنے والا کوئی جاہل نہیں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کا دعوی دار بھی ہے۔
کل سے مجھے کچھ دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ میری پوسٹس سے ایسے لگ رہا ہے کہ میں بخیثیت مجموعی گجر قبیلہ کو نشانہ بنا رہا ہوں، تو میرا ہرگز ایسا مقصود نہیں ہے۔ اسی خاندان کے اندر چوہدری عبدالعزیز صاحب سابق وزیرِقانون جیسی شخصیات بھی ہیں، جن کا احترام میں اپنے والد صاحب کی طرح کرتا ہوں، ان کے گھر کےساتھ عرصہ 16 سال سےتعلقات ہیں، محمددین شیدائی صاحب ایڈووکیٹ جیسے شریف النفس، چوہدری فریدصاحب ڈپٹی کمشنر جیسے دردِدل رکھنے والے بھی ہیں،ڈاکٹر شبیر شریف صاحب جیسے مسیحا بھی ہیں۔ اور ان کے علاوہ بھی کئی ہیں جن سب کا نام نہیں لکھ سکتا۔ میں کیسے سارے خاندان کو ایسا کہہ سکتا ہوں۔ لیکن ان کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ پہلے جب ایک انسان دوست قیادت تھی تو آپ کے گھروں سے، ڈاکٹر ، انجنئیر ، سول سرونٹس ، بنکار پیدا ہوتے تھے تو اب کیوں درندے، سفاک قاتل، شرابی اور سرِ بازار ریپ کرنے والے پیدا ہو رہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
اور سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ابھی تک خاندانی بنیاد پہ گجرقبیلہ سے کتنے معقول لوگوں نے اس کے مذمت کی ہے؟ جو مجھے درندوں کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا، ان سے ہمدردی رکھے گا اس کے خلاف میں اسی شدت سے بولوں گا، وہ گجر ہو، راجہ ہو، مہاراجہ ہو یا خواجہ ہو۔
اور اس سارے کیس میں ایک احساس شدت سے پیدا ہو رہا ہے کہ ہم صرف ایک کرنل کے غلام ہیں۔ کہوٹہ کے اندر فوجی موبائل سروس ہے جس کو مظفرآباد سے ایک کرنل بیٹھ کے ڈیل کرتا ہے۔ ان سے کال ریکارڈ تقریبا ایک ہفتہ بعد ملا، جب کہ باقی جتنی کمپنیز ہیں ان کا کال ریکارڈ ایک گھنٹہ میں لیا جا سکتا ہے، کالر کی لوکیشن ٹریس کی جا سکتی ہے، وائس کالز 2 ماہ تک مخفوظ رکھنا لازمی ہے اور میسج ریکارڈ 3 سال تک مخفوظ رہتا ہے۔ جو کیس کی تفتیش میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر یاسر کے موبائل کا ڈیٹا اسی وقت یا 4 دن تک بھی نکل آتا تو آج یاسر زندہ ہوتا، مگر یاسر کو ہم سب نے مل کا مارا ہے۔ افسوس ہم ہی قاتل ہیں۔
درندگی کے کچھ مزید شواہدبھی دیکھ لیں۔۔۔۔

Author: News Editor

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.