مسئلہ کشمیر اور انتخابات

اے۔ایچ آزاد

لاہور آئے تین ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ جب بھی کسی بس سٹاپ ،عوامی مقامات پر راستہ پو چھا گیا تو عوام کی جانب سے نو واد سمجھ کر پہلا سوال یہی سامنے آیا کہ آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔

جنہیں میں ہمیشہ مختصر سا جواب ’’جی میں کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں ‘‘دیتا ہوں ۔سوال کرنے والے ہمیشہ دوسرا جملہ ادا کرتے ہیں کہ آپ مقبوضہ کشمیر کے رہنے والے ہیں؟ تو اس کا جواب بھی ’’جی ہاں‘‘ہی ہوتا ہے مگر جب شہر کا نام پوچھنے پر انہیں بتایا جاتا ہے کہ میں مظفر آباد سے تعلق رکھتا ہوں تو میرے اس جواب پر اکثر سوال کرنے والے مسکرا کر اپنی راہ چل پڑتے ہیں۔ بعض یہ ضدکرتے ہیں کہ مظفر آباد تو آزاد کشمیر میں ہے ایسے افراد کو سمجھانے میں کے لیے صرف اتنا بتاتا ہوں کہ جسے پاکستان کے لوگ آزاد کشمیر کہتے ہیں اس علاقے کو بھارت مقبوضہ کشمیر کہتا ہے ۔جسے پاکستان مقبوضہ کشمیر کہتا ہے اسے بھارت آزاد مانتا ہے، میں کڑور لوگوں کی بات مانو۔۔۔یا ایک ارب سے زائد انسانوں کی بات سچ جانو ۔میرے نزدیک نہ تو یہ آزاد ہے اور نہ ہی وہ آزاد ہے

ریاست کشمیر چاہے وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ،گلگت بلتستان یا بھارت کے زیرانتظام جموں ،وادی کشمیر ،لداخ ہو اقوام متحدہ کی قراددادوں کے مطابق عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے ہیں۔ آزاد و مقبوضہ کی باتیں صرف چند مفاد پرستوں کی کاروباری اختراح ہے ۔کشمیر کی آزادی و غلامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے آج تک پاکستان و بھارت کے زیر اہتمام علاقوں میں صرف ان ہی لوگوں نے حکومت بنائی جو الحاق پاکستان یا الحاق ہندوستان کی شقوں پر دستخط کر کے انتخابی سیاست میں خوطہ زن ہوئے ۔پاکستان اور ہندو ستان کے آئین کے تحت ہونے والے انتخابات میں بھی الحاق ہندوستان کے اس فرقہ کو حکومت بنانے کا موقع ملا جسے دہلی اور اسلام آباد کی سر پرستی حاصل رہی۔ 2008میں پاکستان میں پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی تو گلگت کو’’ صوبہ نما‘‘بنا کر الیکشن کرائے تو گلگت میں پی پی کی حکومت قائم بن گئی ۔ پاکستان میں مسلم لیگ ن بر سر اقتدار آئی تو گلگت سے پی پی کو 24میں سے صرف ایک نشست حاصل ہوئی۔ اگر پاکستان میں دوبارہ پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آجاتی ہے تو زنگ آلود تیر شیروں کو ڈھیر کر دیگا ۔یہی حالت کشمیر کے دوسرے خطوں میں بھی ہے مظفرآباد میں موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہے اور 21جولائی کو ہونے والے انتخابات کی رسم ادا کر کے مسلم لیگ ن حکومت قائم کرے گئی ۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قبل ازیں یہی صورتحال رہی۔ دہلی میں بر سراقتدار پارٹی کی حمایت یافتہ جماعت مسند حکمرانیت پر فائز ہوتی رہی مگر گزشتہ انتخابات میں بائیومیٹرک سسٹم نے نریندر مودی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا لیکن اس کے باوجود بھارتی جنتہ پارٹی (بی جے پی)کو پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار کر دیا گیا۔ریاست کے جس حصے سے میرا تعلق ہے بھارت اسے مقبوضہ اور پاکستان اسے آزاد گردان رہا ہے۔ ریاست کے اس حصے میں الحاق پاکستان کے معائدوں پر دستخط کرنے والوں کو بھی آزادی میسر نہیں ۔ریاست کا براہ راست کنٹرول اسلا آباد سے وزرات امور کشمیر چلا رہی ہے۔فوجی علاقہ ہونے کے باعث جی اوسی مری کا بھی ریاست پر گہرا اثرورسوخ ہے ۔

ریاست میں رائج قانون ایکٹ 1974کے 56معاملات میں سے 52معاملات پاکستانی وزارت امور کشمیر کے پاس ہیں اور صرف 4معاملات چلانے کے لیے نمائشی صدر ،وزیراعظم، اسمبلی ،ممبران پارلیمنٹ ،سپیکر، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ موجودہیں۔آزاد حکومت کی آزادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ الحاق پاکستان کی شق پر دستخط کرنے کے باوجود آزاد حکومت عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی بات نہیں کر سکتی کیونکہ ایکٹ 1974کے تحت یہ حق صرف اور صرف پاکستان کی وزارت امور کشمیر کو حاصل ہے۔ آزاد حکومت اپنی ریاست میں ٹیکس جمع نہیں کر سکتی ،اپنے دریاؤں پر بجلی پیدا کرنے کے منصوبے نہیں لگا سکتی مگر اسلام آباد کی وزرات امور کشمیر ہوا،پانی ،سمیت تمام اشیاء پر ٹیکس لگانے اور وصول کرنے کی مجاز ہے۔ ریاست میں حقیقی آزادی کی جدوجہد کرنے والی جماعتیں الحاق کی شق کے باعث انتخابی عمل سے ہی دور کر دی جاتی ہیں۔

1947سے آج تک خود محتاری کشمیر کے نظریے کی حامی جماعتیں انتخابی سیاست سے دور رہیں ۔

اسلام آباد کی منشاء کے خلاف آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والوں پر ریاستی ،ظلم وجبراور نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا کے بعد انسانیت سوز تشدد اور ماروائے عدالت قتل جیسے واقعات کا سامنا ہے مگر ان تمام پرہتھکنڈوں ،ظلم و بربریت ،جبرو استبداد کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں سر فروش آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد کیساتھ ریاست اور ریاست کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بھی یہی سر فروش پیش پیش رہے ۔

حکومت پاکستان نے 2007میں جب نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ کی ابتدا کی تو انہی سرفروشوں نے غیر آئینی و غیر قانونی منصوبے کے خلاف ابتدائی جدوجہد کی ۔مظفرآباد میں منصوبہ کے خلاف احتجاج کرنے پر کشمیر نیشنل پارٹی کے زونل صدر میرافضال سلہریا پر مقدمہ درج کرایا گیا۔نیلم جہلم پراجیکٹ کے حوالے سے ایک سمینار کے دوران’’ نامعلوم افسر ‘‘نے افضال سلہریا کو منصوبے کے مضمرات پر بات کرنے سے روکنے کی کوششیں کی مگر سول سوسائٹی کی مداخلت پر آفیسر موصوف فرار ہو گئے۔ آج نیلم جہلم منصوبے تکمیل کے مراحل میں داخل ہو چکامگر 2007میں اس منصوبے کے خلاف آواز بلند کرنے والوں پر ریاستی تشدد کروانے والے حکمران آج وہی مؤقف احتیار کیے ہوئے ہیں جو اس وقت کشمیر نیشنل پارٹی نے اختیار کیا تھا ۔منصوبے کی تکمیل سے دریائے نیلم و جہلم نالہ لئی کی شکل اختیار کر جائیں جبکہ اسلام آباد کے محل جگمگائیں گے ۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 21 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں کشمیر نیشنل پارٹی نے بھر پور حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے عوام تک اپنا نظریہ پہنچانے کی ٹھان لی ہے۔ دارلحکومت مظفر آباد سے میرا فضال سلہریا عوامی حقوق اور تحریک آزادی کی جدوجہد کا علم لیکر میدان میں نکل گئے ہیں ۔مظفر آباد کے عوام فیصلہ کریں کہ وہ گزشتہ 20برس سے آزادی اور عوامی حقوق کی جدوجہد کے لیے اپنا مستقبل قربان کرنے والے میرافضال سلہریا پر اعتماد کرتے ہیں یا دریائے نیلم و جہلم کو نالہ لئی بنانے والوں کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

Nookekhanger

Author: News Editor

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.